یہ تصویر مقبوضہ کشمیر کی نہیں جہاں ریاست کی سیکورٹی فورس نے وہاں کی مظلوم عوام کو کئی دہائیوں سے یرغمال بنا رکھا ہے بلکہ یہ تصویرکراچی کی ہے جہاں پولیس نے عوام کو لاک ڈاؤن کے دوسرے روز سڑکوں پر مرغا بنا رکھا ہے اور ان سے ناکردہ گناؤوں کی توبہ کروائی جارہی ہے۔ پاکستان کے ایک معتبر روزنامے میں شائع ہونے والی یہ تصویر اور اسی طرح کی کچھ دیگر تصاویر اس بات کی نشاندہی ہے کہ ریاستی پولیس کرونا وائرس کی آڑ میں عوام سے پچھلے کئی سالوں کے بدلے لے رہی ہےجس دوران عوام کے اندر اپنی مدد آپ آگے بڑھنے کا جذبہ پروان چڑھتا رہا ہے۔ اس اخباری رپورٹ کے مطابق، پولیس نے لاک داؤن کے مقررہ کردہ ضوابط کی خلاف ورزی پر لوگوں کو سڑک پر مرغا بنایا، انہیں گرفتار اور پھر ان کی مجسٹریٹ کے ذریعے ضمانت پر رہائی ہوئی۔ عوام کو سڑکوں پر مرغا بنائے جانے کے دوران ہرفرد کے درمیان ایک میٹر کے فاصلے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
دوسری طرف صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا لاک ڈاؤن کے دوران عوام سے گھروں میں رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اگر آپ 14 دن کے لیے گھروں میں نہ رہ کر ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہو تو ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔
اسی طرح ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ پولیس کا کام عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ کام تبھی بہتر ہوسکتا ہے جب شہری پولیس کا ساتھ دیں۔
ان دونوں شخصیات کے بیان میں درخواست اور اپیل کے الفاظ استعمال کئے گئے لیکن یہ تصویر اس کے برعکس ریاستی جبر اور انسانیت کی تذلیل کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس بارے میں اگر ملک کے نام و نہاد دانشوروں سے جو بناوٹی اور خودساختہ ٹی وی ٹاک شوز کو دیکھ دیکھ کر یا اس طرح کے پروگراموں میں شریک ہوکر اپنے آپ کو مفکر کہلواتے ہیں، بات کی جائے تو ان میں سے کئی یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ یہ عوام کا قصور ہے اور اس طرح کی عوام کا یہی علاج ہے۔ یہ لوگ اور ان کی طرح کے کوئی اور لوگ بھی ملبہ عوام پر ہی ڈال دیتے ہیں۔
بحیثیت پاکستانی شہری ان لوگوں اور ان کے حکمرانوں سے بھی راقم کی گزارش ہے کہ ارے بھائی جب ریاست نے پولیس کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور خود پولیس نے بھی اپنے ظالمانہ رویئے سے عوام کے ساتھ فاصلہ پیدا کیا ہے تو پھرعوام کو پولیس اور ریاست پر کس طرح اعتماد ہوسکتا ہے۔ اب تو ڈنڈا بردار پولیس نے کرونا قانون کے تحت عوام کو سڑکوں پر مرغا بنا کر رہی سہی کسر بھی نہیں چھوڑی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی دوکانیں اور ہسپتال اور میڈیکل سٹورز وغیرہ کھلے ہیں اور لوگ وہاں سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکتے ہیں لیکن اس تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ ضروری اشیاء کی خرید کے لیے گھر سے باہر جاتے ہیں تو پھر بھی پولیس انہیں پکڑ کر تشدد کا نشانہ بناسکتی ہے۔
پاکستان کی اکثر حکومتوں نے عوام کے حوالے سے ہمیشہ زبردستی اور جبر سے کام لیا ہے۔ عوام کے شہری حقوق کو سلب کرکے ان میں یہ شعور ہی نہیں پنپنے نہیں دیا کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں، ان کے حقوق کیا ہیں اور ان کی ذمہ داری کیا ہے۔ عوام کو ہمیشہ کبھی ٹیکس، کبھی جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر، کبھی قرض اتارو اور کبھی ڈیم بناؤ مہم کے نام پر تو لوٹا گیا، کبھی سرچارج اور کبھی ایڈیشنل سرچارج لگائے گئے لیکن اس کے بدلے میں انہیں کوئی خاص سہولت نہیں دی گئی بلکہ جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اب کرونا وائرس کی آفت آئی تو اسی عوام سے جنہیں اپنے حقوق و فرائض کا پتہ نہیں، کیا توقع کرتے ہو کہ وہ راتوں رات نافذ کردہ نئے قواعد پر عمل کرسکیں گے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور ملک کے مٹھی بھر امیرطبقات کے پاس دنیا کے بہترین وسائل ہیں اور وہ شعور بھی رکھتے ہیں اور دنیا کی بہترین تعلیم سے بھی آراستہ ہیں، اگر انہیں کئی ماہ تک اپنے آپ کو گھروں میں بند ہونا پڑے تو ان کی دولت میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور ان کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن عوام کی اکثریت کی یہ حالت ہے کہ وہ شاید ایک دن بھی گھر میں بیٹھ کر کھانے کے قابل نہیں۔ کتنا المیہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوسرے روز ہی عوام کو روڈ پر مرغا بنوا کر انسانیت کی تذلیل کئی گئی لیکن ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ لاک ڈاؤں سے پہلے ایک مکانیزم بناتے جس میں یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ حکومت کی بحیثیت ریاست عوام کے حوالے سے کیا ذمہ داری ہوگی اور عوام کے اس دوران کیا فرائض اور حقوق ہوں گے۔ یہ بات نہیں کہ حکومت ایسا نہیں کرسکتی بلکہ کرسکتی ہے کیونکہ اس کے پاس ضروری وسائل ہیں اور ہرشعبے کے بہترین ماہرین بھی موجود ہیں۔
لیکن شاید وہ جبری سیاست کی بنیاد پر لوگوں کو ایک مارشل لاء کی کیفیت کے تحت رکھنا چاہتی ہے جبکہ عوام میں ریاست پر حکومتوں کے ظالمانہ رویئے کے باعث کبھی اعتماد ہی نہیں قائم ہوسکا۔ اب تو کرونا کے نئے آرڈر کے تحت حکومت نے پولیس کی مدد کے لیے فوج بھی طلب کرلی ہے۔ فوج ایک منظم اور بااعتماد ادارہ ہے، فوجی قیادت حکومت کو بہتر طور پر سمجھا سکتی ہے کہ کرونا کے حوالے سے عوام کے ساتھ کس طرح رویہ رکھا جائے۔ حکومت کو لوگوں پر جبر کے بجائے اپنے نامناسب رویئے پر معافی مانگنی چاہیے اور عوام کو ظلم و جبر کے بجائے بہترین آگاہی مہم اور دلائل کے ذریعے قائل کرنا ہوگا۔ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ ’’عوام ہیں ہی ایسے، ان کا علاج ہی ڈنڈا ہے۔’’ ایسا ہرگز نہیں، پاکستان کے عوام نے مصیبت کی ہرگھڑی میں قربانی دی ہے اور آئندہ بھی ایسا کریں گے۔ عوام سے مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں، اللہ بھی آپ پر رحم کرے گا۔
یاد رکھیں، کرونا تو اپنا کام کرکے گزر جائے گا مگر اس مصیبت کے دوران حکمرانوں کا عوام کے ساتھ رویہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کرونا بحران کے دوران حکمرانوں کا نامناسب رویہ آئندہ آنے والے انتخابات میں حکمران جماعتوں کی شکست کا باعث بن جائے۔ لہذا خدا کا خوف کریں اور عوام کے ساتھ کم از کم مہربانی سے پیش آئیں۔ یہی عوام آپ کی طاقت ہیں، ان پر جبر کے ذریعے نہیں بلکہ ان کو ساتھ ملا کرونا کا مقابلہ کریں۔ آخر میں عوام سے اپیل ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور اپنے آپ کو اس بیماری سے بچانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کریں۔ خاص طور پر کوشش کریں کہ اپنے آپ کو گھروں تک محدود کریں، گھر سے باہر نہ جائیں۔ باقی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں، وہ بہتر کارساز ہے۔ خداوند تعالیٰ ہماری قوم بلکہ پوری انسانیت پر رحم کرے، امین